مقبرہ میر بزرگ بارکھان — مغلیہ عہد کا زبوں حال تاریخی ورثہ

آرکیالوجی کا عالمی دن
18 اکتوبر
مقبرہ میر بزرگ بارکھان بلوچستان
بلوچستان میں مغلیہ عہد کا زبوں حال تاریخی ورثہ
مقبرہ میر بزرگ، جرنیل مغلیہ فوج
المعروف قلعہ سوران
دور: عہدِ جہانگیر 1602ء
مقام: ناہڑ کوٹ، ضلع بارکھان۔
تحقیق و تحریر: ڈاکٹر سید مزمل حسین، وسیب ایکسپلورر
مقبرہ میر بزرگ بارکھان شہر سے تقریباً 20 کلومیٹر جنوب مغرب میں ناہڑ کوٹ قصبے میں واقع ہے۔ بارکھان سے ناہڑ کوٹ جاتے ہوۓ ناہڑ کوٹ بستی سے چند کلومیٹر پہلے ہی سڑک کے دائیں جانب ایک تنہا چوٹی پر یہ مقبرہ دور سے دکھائ دینے لگتا ہے۔ یہ سترہویں صدی کے آغاز میں تعمیر ہونے والا مغلیہ عہد کا شاہکار مقبرہ ہے جسے مغل حکمران جہانگیر نے اپنے ایک بہادر جرنیل میر بزرگ کی یاد میں تعمیر کرایا، جو شہزادہ امیر خسرو کے ہمراہ قندھار جاتے ہوئے بیمار ہو کر ناہڑ کوٹ کے قریب وٹاکری کے مقام پر انتقال کر گۓ تھے۔ مقبرہ شاہ رکن عالم ملتان، لال مہڑہ مقابر ڈیرہ اسماعیل خان، مقابر اچ شریف اور دیگر ہشت پہلو مقبروں سے مماثلت رکھنے والا فن تعمیر کا شاہکار مقبرہ میر بزرگ شکست وریخت کا شکار ہے۔ عوام الناس میں یہ مقبرہ قلعہ سوران کے نام سے مشہور ہے۔ اسکو ملکہ نور جہاں کی جاۓ پیدائش بھی کہا جاتا ہے۔
تاریخی حقائق:
ہندو مؤرخ راۓ بہادر لالہ ہتو رام نے اپنی کتاب تاریخ بلوچستان مطبوعہ 1903ء میں اس مقبرہ کا ذکر کیا ہے۔ مغل شہنشاہ جہانگیر کے شہزادہ امیر خسرو نے سن 1010 ہجری بمطابق 1601 عیسوی میں قندھار جانے کے لیے بارکھان کا راستہ منتخب کیا۔ اس سفر میں مغلیہ فوج کے ایک بہادر اور قابل جرنیل، جنہیں میر بزرگ کہا جاتا تھا، بارکھان کے ایک قصبے وٹاکری میں انتقال کر گۓ۔ ناہڑ کوٹ بستی کے مغرب میں ایک وسیع میدان کے درمیان ایک ٹیلہ پر آپکی تدفین کی گئ۔ بعد ازاں مغل بادشاہ نورالدین محمد جہانگیر کی ہدایت پر مقبرہ تعمیر کیا گیا۔
لالہ ہتو رام کی تحقیق کے مطابق مقبرہ پر نصب فارسی زبان میں لکھے کتبے پر تاریخِ تعمیر 17 رمضان 1010 ہجری بمطابق 11 فروری 1602 درج ہے، اب یہ کتبہ مٹ چکا ہے۔ مقبرہ میر بزرگ ناہڑ کوٹ بستی کے مغرب میں چند کلومیٹر کے فاصلہ پر ایک وسیع میدان کے درمیان ایک ٹیلہ پر واقع ہے۔ یہ ٹیلہ میدان کی سطح زمین سے تقریبا 300 فٹ اونچا ہے اور شرقاً غرباً تقریبا 500 فٹ چوڑا ہے۔ اونچائ پر قائم ہونے کہ وجہ سے یہ مقبرہ چاروں اطراف سے میلوں دور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ہشت پہلو مقبرے کا گنبد، شمال مشرقی دیوار اور محرابیں گر چکی ہیں۔ ملتانی کاشی ٹائلز کا خوبصورت کام تقریبا مٹ چکا ہے۔ قبر ملبے تلے دب چکی ہے۔ دیواروں سے تحاریر، عبارات، شاعری وغیرہ کا مکمل طور پر صفایا ہو چکا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کاشی ٹائلز اور بیرونی دیواروں پر نصب شیشے کے کام سے اتنی تیز روشنی منعکس ہوتی تھی کہ اگر حاملہ چوپاۓ دیکھتے تو انکے حمل ضائع ہوجایا کرتے تھے۔ لہذا گڈریوں، گلہ بانوں نے لا وارث ورثہ کو کلہاڑیوں سے وار کر کر کے گرا دیا۔
واللہ اعلم
مقبرہ میر بزرگ کے شمالی جانب واقع ایک قدیم مسجد اپنی نشانیاں مکمل طور پر کھو چکی ہے۔ یہ مسجد اس مقبرہ سے تقریباً سوا دو سو سال قبل فیروز شاہ تغلق کے دور میں تعمیر ہوئ۔ 1903ء میں ملنے والے فارسی کتبے پر مسجد کی تاریخِ تعمیر 20 ذوالحج 770 ہجری بمطابق 26 جولائ 1369 عیسوی درج تھی۔ صد افسوس کہ اب اسکے کھنڈرات بھی ندارد ہیں۔
تعارف میر بزرگ ولد میر معصوم باکھری:
میر بزرگ مغلیہ عہد کی ایک نامور شخصیت میر معصوم باکھری کے صاحبزادے ہیں جو مغلیہ دور میں سندھ کے گورنر رہے۔ میر معصوم اپنے دور کے ایک معروف شاعر، تاریخ دان، آرٹسٹ، طبیب اور بہت اچھے خطاط بھی تھے۔ سندھ کی تاریخ پر مبنی فارسی میں لکھی گئ آپکی تصنیف تاریخ معصومی ایک مستند حوالہ کا درجہ رکھتی ہے۔ آپ اپنی قابلیت کے سبب شہنشاہ اکبر اور پھر جہانگیر کے معتمد اور منظورِ نظر جرنیل تھے۔ مغل دور کی اہم فتوحات میں شامل رہے۔ آپکو ایران میں سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ مغلیہ عہد کی اکثر عمارات میں آپکے لکھے ہوۓ کتبے موجود ہیں۔ سکھر میں آپکا مقبرہ اور معصوم مینارہ سندھ میں ایک اہم تاریخی و سیاحتی مقام ہے۔ قابل باپ کے فرزند ہونے کے ناطے میر بزرگ نے اپنے والد سے فنونِ لطیفہ سیکھے اور باپ کی طرح خود بھی مغلیہ دربار میں اہم منصب پایا۔ یہی وجہ ہے کہ اپکے انتقال کے بعد ناہڑ کوٹ میں آپکے شایان شان مغلیہ روایات کے مطابق عظیم الشان مقبرہ تعمیر کیا گیا لیکن صد افسوس آج یہ مقبرہ نشانِ عبرت بنا ہوا ہے اور عوام و خاص اس مقبرہ میں مدفون صاحبِ مزار کی تاریخ، سونح حیات اور قدر و منزلت سے بے خبر ہیں۔
اربابِ اختیار سے التماس:
ہم وسیب ایکسپلورر کے سیاحتی پلیٹ فارم کے ذریعہ حکومتِ بلوچستان اور حکومتِ پاکستان سے درخواست کرتے ہیں کہ بلوچستان میں واقع اس نادر تاریخی ورثہ کو محفوظ کیا جاۓ، اسکی مرمت و بحالی کی جاۓ وگرنہ جس تیز رفتاری سے یہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے گماں ہے کہ چند سالوں میں یہ صفحہِ ہستی سے مٹ جائیگی اور تب سواۓ کفِ افسوس ملنے کے کوئ اور چارہ نہ ہوگا۔ خدارا تاریخ کے اس شاہکار کو محفوظ کیا جاۓ۔ اس مقام کو ایک شاندار ٹورسٹ سپاٹ کی شکل دی جاسکتی ہے جو تاریخ و ورثہ سے لگاؤ رکھنے والے احباب کے لیے بلوچستان میں ایک اہم سیاحتی مقام ثابت ہوگی۔
حوالہ جات:
1. تاریخ بلوچستان از لالہ ہتو رام
2. تحقیقاتی مقالہ: مقبرہ میر بزرگ بارکھان، تاریخ و تعمیر
از شاکر نصیر، وحید رزاق، غلام فاروق بلوچ
3. قدیم پاکستان، جلد 27، سال 2016
Ancient Pakistan, Vol. XXVII (2016)
گوگل میپ لوکیشن:
Tomb of Meer Buzrug
مختلف شہروں سے فاصلے:
سیاحوں کی معلومات کے لیے مختلف شہروں سے مقبرہ کے فاصلے درج ذیل ہیں۔۔۔
بارکھان: 20 کلومیٹر
رکنی: 70 کلومیٹر
کوئٹہ: 375 کلومیٹر
فورٹ منرو: 90 کلومیٹر
ڈیرہ غازی خان: 160 کلومیٹر
ملتان: 260 کلومیٹر
فورٹ منرو سے مقبرہ میر بزرگ تک تقریباً دو گھنٹے کا سفر ہے۔
اظہارِ تشکر:
وسیب ایکسپلورر کے ابتدائی سال 2016 میں اس مقبرہ کے دورہ کا ارادہ کیا جب تونسہ شریف کے سینیئر ایکسپلورر ڈی ایم جمیل صاحب نے اس مقبرہ کی تصاویر شیئر کیں۔ الحمد اللہ پانچ سال بعد رواں ماہ اگست 2020 میں محترم عطاء الرحمن گورمانی سربراہ انڈس ٹورسٹ کلب کی بدولت یہ دورہ ممکن ہوا اور اس قدیم ورثہ کو دیکھنے کی خواہش پوری ہوئ۔ نہایت شکر گزار ہوں عبد الرحمن پالوا صاحب کا جنہوں نے مقبرہ کی لوکیشن بارے گائیڈ کیا۔ بہت شکریہ بلوچستان میں کراس روٹ کلب کے سفیرِ سیاحت عزیزم جناب عزیز احمد جمالی کا، آپکے توسط سے ناہڑکوٹ میں محترم غلام رسول کھیتران نے نا صرف ٹیم وسیب ایکسپلورر کو خوش آمدید کہا بلکہ مقبرہ میر بزرگ اور ناہڑ کوٹ ڈیم کا دورہ کرایا اور روایتی ضیافت کا اہتمام بھی کیا۔ ڈیرہ غازی خان سے قاضی محمد شاہد صاحب اور فورٹ منرو سے شاہجہاں لغاری بھی اس یادگار سفر میں شریک ہوۓ اور گاہے بگاہے مناظر کی فوٹو گرافی اور ویڈیو گرافی میں ہماری معاونت کی۔ سید جاوید حسین شاہ مقیم بھکر (مصنف: بھکر داستان، بکھر سے بھکر تک) نے میر معصوم باکھری بارے تفصیلات فراہم کیں۔ اللہ تعالیٰ تمام احبابِ سیاحت کو سلامت رکھے آمین۔
طالب دعا:
ڈاکٹر سید مزمل حسین
وسیب ایکسپلورر
کراس روٹ کلب، ملتان۔