وادی کمراٹ اپر دیر
جہاں ابھی علاقائی روایات اور مہمان نوازی باقی ھے
باب کمراٹ سے داخل ھو کر میں کمراٹ کی خوبصورت پینٹنگز نما وادی کے حسین نظاروں سے بھرپور لطف اندوز ہوتے ھوئے جا رھا تھا۔ شرنگل سے 4 کلومیٹر دور پہنچا تو پچھلے ٹائر میں وائبریشن محسوس ھوئی۔ بائیک ایک طرف روک لی۔ دیکھا تو ٹائر دوران ٹور پہلی بار پنکچر ھو گیا تھا۔ اس سے پیشتر “” محترم پنکچر صاحب “” نے مجھے جب بھی ڈنگ مارا ، لاھور شہر میں ھی ان کے ڈسے جانے کے علاج کے لئے ٹائر مینٹیننس سپیشلسٹ معالج سے رجوع کرنا پڑا۔ میری بائیک کے دونوں عام اوریجنل نہیں ہیں بلکہ محترم Akber Ismail کے مشورے سے Ralco کے ٹائر پہلے دن ھی تبدیل کروا لئے تھے۔ یہ ٹائر عام ٹائر سے کچھ بڑے ، موٹے اور مضبوطی کے حامل ھیں۔ جس کی بناء پر پنکچر ھونے کے چانسز کم ہی ھوتے ھیں۔ مگر ایک مسئلہ ھے اگر پنکچر ھو جائے تو عام دوکاندار ( آئیں مائیں) اتنی جلدی اسے ھاتھ نہیں لگاتا قدرے سوچ میں پڑ جاتا ھے۔ خیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بائیک قدرے ویرانے میں پنکچر ھوئی تھی اس لئے اسے گھسیٹ کر کسی طرح زیر نظر تصویر کی دوکان تک پہنچا۔ سامان اتار کر ٹائر کھولنے اور پنکچر لگانے کی کوشش شروع کردی۔ مجھ سے ٹائر کیا کھلا ، کیسے کھلا ، کتنی دیر میں کھلا ، ایک لمبی کہانی رھی۔ پنکچر مکمل ھونے تک
رات کے تقریباً ساڑھے آٹھ بج چکے تھے۔ یہ دوکاندار سات بجے سے پہلے چلا جاتا تھا مگر یہ اور مزید پانچ مقامیوں نے میری اس سلسلے میں مدد کی۔ میں نے فری ھو کر جانا چاھا اور اجازت مانگی تو بنچ پر بیٹھے بزرگ کہنے لگے کہ آپ کو ھم نے نہیں جانے دینا۔ آپ ھمارے مہمان ھیں آج رات۔ صبح سویرے ھی انشاء اللہ آپ کو الوداع کہیں گے ھم۔ میرے اصرار کرنے پر بھی وہ نہ مانے اور مجھے ان کا مہمان بننا پڑا۔ میں نے ایک ہی شرط عائد کی کہ میں رات کے کھانے میں صرف وہ ہی کھاؤں گا جو گھر میں پکا ھوگا۔ میرے لئیے آپ خاص کچھ نہیں پکائیں گے اور نہ ہی کسی ھمسائے سے لائیں گے۔
رات بھر ان کی بہترین پر خلوص مہمان نوازی سے مستفید ھونے کے بعد صبح سویرے اجازت چاہی تو اتنی دیر میں ناشتہ اگیا۔ ناشتے کے بعد گلے مل کر دوبارہ آنے کے وعدہ پر اجازت ملی۔ اتنے پرخلوص لہجوں کے حامل لوگ ابھی بھی باقی ہیں۔ آپ بھی جائیں ! ان پرخلوص وادیوں میں ! جہاں کے لوگ آپ کی چاھتوں کا جواب آپ کی توقع سے زیادہ بہتر انداز میں دیں گے۔

