کمراٹ کمراٹ کمراٹ کمراٹ کمراٹ
جہاں کے باسی ابھی اخلاقیات سے عاری نہیں ھوئے۔
جس کو بھی دیکھو ! سنو ! وہ کمراٹ وادی کے حسن کے گن گا رھا ھے۔ بائیکرز ، اور فطری حسن کے متلاشیوں کے لئے یہ خطہ ایک جنت سے کم نہیں۔ اپر دیر سے چند کلومیٹر پہلے آپ دائیں طرف واقع باب کمراٹ سے کمراٹ ویلی کے لئے داخل ھوتے ھیں تو کمراٹ وادی تک تقریباً 75 کلومیٹر کا طویل سفر طے کرتے ہوئے آپ پر بے شمار خوشگوار کیفیات وارد ھوں گی۔ برف کی سفید چادر اوڑھے نئی نویلی دلہن بنی پہاڑوں کی چوٹیاں اپنے من میں سے یخ بستہ چشموں کی صورت میں پانیوں کا خراج دیتی ہیں وہ پانی جلترنگ بجاتے ندی نالوں کی صورت میں پوری شان سے وادی میں بہتا ھے۔ ھر طرف دیودار ، چیڑ ، پڑتل اور دیگر قیمتی درختوں کے جھنڈ نظر آئیں گے۔ بعض جگہیں ایسی بھی نظر آئیں گی جہاں ان کی بہتات کی وجہ سے رنگ سبز کی بجائے کالا محسوس ھوگا۔ اونچے نیچے زگ بناتے ، پگڈنڈیاں نما راستے دور سے دیکھنے پر یوں محسوس ھوں گے کہ جیسے عنکبوت نے قدرت کی طرف سے عطاء کردہ صناعیوں کو آشکار کیا ھو۔ تہہ در تہہ اونچے نیچے ترتیب سے آراستہ کھیت و کھلیان بھی ھوں گے۔ روئی کے گالوں کی مانند بلندیوں سے اترتی آبشاریں بھی ھوں گی۔ کہیں شاہراہ اتنی تنگ ھو جائے گی کہ آپ کو محسوس ھوگا کہ جیسے گلگت بلتستان کے شہر استور جانے کے لئے ایک بند بوتل نما راستے میں داخل ھو گئے ھیں۔ اور کہیں دور تک پھیلے خوشنمائی کھیت پنجاب کے لہلہاتے میدانوں کا گماں دیں گے۔
یہ سب دیکھ کر آپ ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جائیں گے کہ یہ تو شائید وادی سوات ھے ؟ نہیں ! یہ تو کشمیر جنت نظیر کی وادی نیلم ھے ۔ نہیں ! یہ تو نیلگوں پانیوں اور جھیلوں کی سرزمین وادی کاغان ھے۔
یہ سب دیکھنے ، سننے ، محسوس کرنے ، بیان کرنے اور سب سے بڑھ کر ان کیفیات کو خود پر آشکار کرنے کے لئے آپ کو خود ایک بار کمراٹ جانا ھوگا۔ مری ، نتھیاگلی ، ناران ، سوات کالام ، گلگت ، ھنزہ ، کے قدرے پر ہجوم جھمیلوں سے دور یہ وادی آپ کی منتظر ھے۔ کراچی ، لاھور ، راولپنڈی سے اپر دیر تک کے لئے ایئر کنڈیشنڈ اور نان ایئر کنڈیشنڈ بسیں چلتی ہیں۔ جو کہ براستہ مردان ، چکدرہ ، تیمرگرہ آپ کو اپر دیر تک پہنچا دیتی ہیں۔ اپر دیر سے شرنگل تک کا راستہ پختہ ھے۔ اس کے بعد 50 کلومیٹر کا راستہ کچا اور ناپختگی کا شکار ہے۔ شرنگل سے آگے سفر کرنے کے لئے جیپ یا مقامی طور پر چلنے والی جاپانی کرولا گاڑیاں ٹھیک رہیں گی۔ آپ اپر دیر سے شرنگل تک لوکل ھائی ایس وین پر سفر کر کے بھی آسکتے ہیں۔ مگر بہتر طریقہ یہ ھے کہ اپر دیر سے گاڑی بک کروائیں۔ صبح سویرے اپر دیر سے نکلیں۔ گاڑی والے سے معاملات طے کرنے ھیں کہ مجھے کمراٹ ویلی میں آبشار کے آس پاس کہیں اچھے ٹینٹ ھوٹل تک چھوڑ کر آئے گا۔ راستے میں کلکوٹ ، پاتراک اور دیگر چھوٹے چھوٹے گاؤں بھی نظر آئیں گے۔ ھر طرف سوائے خوبصورتی کے اور کچھ نہیں۔ جہاں منظر اچھا لگے ! گاڑی رکوا لیں ! اتریں ، ان مناظر کو کیمرے کی آنکھ سے دیکھ کر ھمیشہ کے لئے اپنی یادوں میں قید کر لیں۔ دریا پنجکوڑہ آپ کے ھمراہ ھی چلتا رھے گا ۔ من چاھے تو دریا کنارے بیٹھ کر سنیں اس کی بپتا ! محسوس کریں اس کی آشفتہ سری کو ! راستے میں آبشاریں بھی ہیں اور چشمے بھی۔ جگہ جگہ ریسٹورنٹ بھی موجود ہیں۔ اور رھائشی ھوٹل بھی۔ تھل علاقے کا مرکزی شہر ھے۔ یہاں سے جندرائی اور بڈاگوئی پاس برائے کالام کے راستے الگ ھوجاتے ھیں۔ ( ان کی تفصیل الگ پوسٹ کی متقاضی ھے) آپ تھل سے کمراٹ ویلی میں داخل ھوں گے تو ایک پولیس چیک پوسٹ پر آپ کو روک کر آپ کا اندراج کیا جائے گا تاکہ آپ کا تخفظ بھی رھے اور وادی کمراٹ میں آنے والے سیاحوں کا ریکارڈ بھی کہ اس سال کتنے سیاحوں نے کمراٹ کے حسن کو اپنے من میں بسایا۔ جگہ جگہ بے شمار چھوٹے بڑے عارضی طور پر قائم جستی چادروں اور ترپالوں سے بنے خوبصورت ٹینٹ ولیج موجود ہیں۔ جائیں ، دیکھیں ، ریٹ طے کریں ، جس سے بات بنے اسی کے پاس رک جائیں اور گاڑی سے سامان اتار کر گاڑی والے کو فری کردیں۔ اب جتنے دن دل چاھے جی بھر کر آرام کریں۔
سیکورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ھے۔پھر بھی خواتین زیورات نہ لے کر جائیں۔ پوری وادی گھنے جنگلات پر مشتمل ھےپیدل گھومیں پھریں۔ جب من چاھے جندرائی جائیں۔
ھوٹل نہ رکنا چاہیں تو اپنا کیمپ بھی لگا سکتے ہیں۔ مگر واش روم کے لیے کسی کیمپ ولیج سے لائن سیٹ کرنی پڑی گی۔ بہتر ھے کہ کسی ھوٹل کے لان میں اپنا کیمپ لگایا جائے اس طرح محفوظ بھی رھے گا۔ ان سے پیسے طے کر لیں کیمپنگ کے یا کھانا وغیرہ کھانے کی حامی بھریں گے تو فری ھیں لگوا دیں گے۔
اپنی گاڑی پر آنے والے ایسی گاڑیاں ساتھ نہ لائیں جو کہ نیچے لگنے والی ھوں۔ گاڑی کی کمانی اونچی کروا کے ایڈجسمنٹ کی ھو تو اچھی بات ھے۔ ٹیلی نار نیٹ ورک کے سگنلز کسی حد تک بہتر ھیں۔ وارد اور دوسرے نیٹ ورک بھی کام کرتے ہیں مگر بہتر ھے کہ ٹیلی نار کی ایک سم ساتھ لے آئیں اور اس کا نبمر اپنے اہل خانہ کو پہلے سے دے کر آئیں۔
باقی رھے بائیکر ٹورسٹ !!!! وہ تو ایڈونچر لوور ھیں ان کو تو بس راستہ نظر آنا چاھیئے وہ ھر جگہ پہنچ جاتے ہیں۔
تحریر ! عبدالمنان لاھور
بائیکر ! مصنف ! ٹریول رائیٹر

