وسیب ایکسپلورر کا پہلا سیاحتی دورہ — دائرہ دین پناہ سے لیہ تک تاریخی ورثے کی جستجو

16 اکتوبر 2016 بروز اتوار کو ٹیم وسیب ایکسپلورر نے اپنا پہلا باضابطہ سیاحتی دورہ کیا جو کہ ڈیرہ غازی خان سے لیہ براستہ تونسہ بیراج تھا. اس سیاحتی دورہ میں ڈیرہ غازی خان سے پروفیسر شعیب رضا, محمد شکیل, سید مزمل حسین اور لیہ سے ڈاکٹر عابد علوی, فیصل جمال اعوان اور مظہر یاسر شامل تھے. ڈیرہ غازی خان سے علی الصبح بذریعہ کار روانہ ہوۓ, شکیل صاحب نے ناشتہ کا سامان ہمراہ لیا اور تونسہ بیراج پہنچ کر دریاۓ سندھ کے مشرقی کنارے کے بائیں جانب ساحل پر کھڑی ایک کشتی میں بیٹھ کر ناشتہ کیا.
ہماری پہلی منزل دائرہ دین پناہ میں حضرت سخی دین پناہ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار تھا. آپ 955 ہجری میں پیدا ہوۓ اور 1012 ہجری میں وصال فرمایا. آپکا مقبرہ تقریبا 400 سال قبل مغل بادشاہ اکبر کے دور حکومت میں تعمیر ہوا. یہ مقبرہ جنوبی پنجاب کے دیگر روایتی مقابر کی طرز پر تعمیر ہے اور ملتان میں حضرت شاہ رکن عالم رحمتہ اللہ علیہ کے مقبرہ سے مماثلت رکھتا ہے. عکاسی کیلیۓ ہم مقبرہ کی بالائ منزل پر بھی گۓ اس دوران مقبرہ کے گردو نواح میں ہمیں ایک پرانی عمارت نظر آئ جسکے چار گنبد تھے. مقامی افراد سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ سجادہ نشین کا ڈیرہ ہے اور مخدومین کا ڈیرہ کہلاتا ہے. یہ عمارت افغان طرز تعمیر کا نمونہ ہے اس ڈیرہ کے پانچ کمروں کی گنبد والی چھت تھی درمیان والا گنبد گر چکا ہے لیکن چاروں کونوں والے کمروں کے گنبد موجود ہیں جن میں سے دو اصل حالت میں ہیں اور دو کی مرمت ہو چکی ہے, کمروں کے دروازوں میں رنگین شیشیے لگے ہوۓ ہیں.
دائرہ دین پناہ میں کوٹ ادو لیہ روڈ پر ایک پولیس کی چوکی بھی دیکھی جو برطانوی دور حکومت کی تعمیر معلوم ہوتی ہے لیکن اب کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہے.
لیہ بائ پاس پر ہمارا استقبال فیصل ظفر صاحب اور ڈاکٹر عابد علوی نے کیا اور سب سے پہلے حضرت سخی حبیب شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کی زیارت و فاتحہ خوانی کی. کہتے ہیں کہ یہ لیہ کے اوائل اولیاۓ کرام میں سے ہیں. یہاں سے ہم نے ایک پرانے متروکہ مندر کی جانب رخ کیا, یہ مندر ماتا مائ مندر کے نام سے مشہور ہے اور ریلوے اسٹیشن کے قریب ریلوے لائن کے مشرقی جانب موجود ہے, اب اسکے کھنڈرات ہی باقی ہیں.
اگلی منزل شاہ پور _ راجن شاہ سڑک پر بستی سہو والا کے قریب صدیوں قدیم مندر سری گاڑو لعل تھی. یہ لیہ کا قدیم ترین مندر ہے. اگرچہ تقسیم پاک و ہند کو ستر برس بیت گۓ لیکن اس مربع نما کمرہ میں شطرنجی فرش دیواروں پر فریسکو آرٹ اور تشبیہات کے ذریعہ راون کی لڑائ کا منظر پیش کرتا یہ مندر اب بھی کسی حد تک محفوظ ہے لیکن باہر سے اسکی دیواریں شکستہ حالی کا شکار ہیں. کہتے ہیں لوگ یہاں جن نکلوانے کے لیۓ آتے تھے.
مذکورہ بالا مندر سے دو تین کلومیٹر آگے حضرت راجن شاہ رحمتہ اللہ علیہ اور انکے صاحبزادہ کا مزار ہے. راجن شاہ 900 ہجری میں پیدا ہوۓ آپ سادات اچ شریف سے ہیں.دربار راجن شاہ بھی طویل القامت اور وسیع و عریض گنبد پر مشتمل مقبرہ ہے. اس مقبرہ پر تجدیدی کام سے اسکا اصل حسن غائب ہو گیا ہے. مقبرہ راجن شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی ابتدائی تعمیر مغل بادشاہ ہمایوں نے 1554میں کروائی۔ جسے بعد میں جلال الدین اکبر اعظم نے 1568میں مکمل کروایا۔ یہ روضہ تقریبا ً 100فٹ اونچا ہے جس کی بیرونی گولائی 225فٹ ہے اور اندرونی گولائی 128فٹ ہے ۔اس کی بنیادوں کی گہرائی پانی کی سطح تک ہے۔روضہ کی عمارت کی چوڑائی آٹھ فٹ ہے. روضہ پاک اندر سے ہشت پہلو ہے اور اندرونی حصہ اوپر گنبد سے گول دائرے کی صورت میں ہے. اس مقبری کا مستری اردن سے آیا تھا اور اس نے یہیں وفات پائی اور اس کی قبر بھی مقبرہ کی دہلیز کے باہر ہے. پہلے یہاں لکٹری کا چھجہ نہیں تھا, یہ بعد میں تقریبا 100 سال قبل 1333 ہجری میں تعمیر ہوا. اسکا قطعہ تاریخ صدر دروازہ کے باہر دیواد پر درج ہے.
راجن شاہ دربار سے واپسی پر لیہ ریلوے اسٹیشن کا دورہ کیا یہ برطانوی عہد میں تعمیر ہوا. اسسٹنٹ اسٹیشن ماسٹر صاحب نے نیلز بالز ریلوے سگنلگ سسٹم سے متعارف کرایا, یہ ریلوے کی تاریخ کے ابتدائ سسٹمز میں سے ایک ہے اور اپنے کار آمد اور محفوظ ہونے کی بنا پر اب تک مختلف جگہوں پر رائج ہے.
ریلوے اسٹیشن کی عکاسی کرنے کے بعد ہمارے میزبان جناب ڈاکٹر عابد علوی نے سلک لانج ریسٹورنٹ میں ظہرانہ کی دعوت دی. بعد از طعام و نماز ظہر ڈیرہ غازی خان کیلیۓ واپسی کی.
اس پہلے سفر میں سینیئر ایکسپلورر و فوٹوگرافر جناب ویر شعیب رضا صاحب سے کافی کچھ سیکھنے کو ملا بالخصوص کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مقامات کی کوریج کرنا. یہ پہلا سفر ہی وسیب ایکسپلورر ٹیم کی پیش رفت کا سبب بنا اور اسکے بعد یکے بعد دیگرے جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں کے سیاحتی دورے شروع ہوۓ.
تحریر:
سید مزمل حسین
تصاویر:
ویر شعیب رضا و سید مزمل حسین