پون چکی 1919ء، پکھے والا کھو، جہانیاں
جنگ عظیم اول میں حصہ لینے کے اعزاز میں برطانوی سرکار نے گوجرہ سے تعلق رکھنے والے صوبیدار امام علی کو چک 131/10تحصیل جہانیاں، ضلع خانیوال میں دو مربع زمین الاٹ کی۔ آپ گوجرہ کو الوداع کہہ کر اس چک میں آباد ہوگئے۔ صوبیدار صاحب ایک باہمت، وضع دار، جدت پسند اور محنتی طبیعت کے حامل شخص تھے۔ جنگی ایام کے دوران فرانس میں پون چکی سے چلنے والا واٹر پمپ دیکھا جس سے متاثر ہو کر وہ ٹیکنالوجی اپنی زمین پر آزمانے کا ارادہ کیا۔ فرانس سے اس پون چکی کا ڈیزائن تیار کروایا۔ جب واپس آۓ تو مذکورہ بالا چک میں سکونت اختیار کی اور پون چکی تعمیر کرائ۔
ہماری معلومات کے مطابق یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کی واحد ہوا سے چلنے والی چکی ہے جو زیر زمین پانی نکالنے کے لیے بنائ گئ تھی۔ صوبیدار امام علی کے پوتے محمد فاروق صاحب نے بتایا کہ یہ مقام پکھے والا (پنکھے والا) کھو کے نام سے مشہور ہے اور جنگ عظیم اول کے بعد ہمارے دادا مرحوم نے اسکو آباد کیا۔ اس وقت نہری پانی کا نظام اتنا مؤثر نہیں تھا۔ دادا مرحوم نے فرانس میں اس پون چکی والے طریقہ کو یہاں متعارف کرایا۔ کافی عرصہ تک اس چکی کی عمارت کی تعمیر جاری رہی جسکو ایک مسلم اور ایک سکھ معمار نے تعمیر کیا۔ اسکے لکڑی کے چار بڑے پر ہیں، جنہیں 180 گز کپڑا لگا تھا۔ ہوا کے رخ پروں کو موڑنے کے لیے عمارت کے ٹاپ پر ٹرین کی پٹڑی کی طرح لوہے کا گول کڑا لگا ہوا ہے۔ پانی نکالنے کے لیے چاروں جانب کنویں کھودے گئے۔ اس وقت زیر زمین پانی 10 سے 15 فٹ کی گہرائ پر تھا۔ جب اسکی تعمیر مکمل ہوئ اور پون چکی نے کام کرنا شروع کیا تو پہلے روز 24 گھنٹوں میں اتنا پانی نکلا کہ اس سے 52 ایکڑ زمین سیراب ہوئ۔ لیکن اگلے روز اس شاندار کامیابی کی خوشی ماند پڑ گئی جب اس بات کا احساس ہوا کہ اس پون چکی کے پروں کو روکنے کا کوئ نظام نہیں تھا، ہوا چلتی رہتی تو پر بھی گھومتے رہتے اور پانی بھی رواں رہتا۔ چناچہ برسوں کی محنت سے بننے والے اس منصوبہ کو صرف ایک دن چلنے کے بعد بند کر دیا گیا۔
پکھے والے کھو میں ہی صوبیدار امام علی مرحوم کی آخری آرامگاہ ہے اور ایک پرانی مسجد بھی ہے۔ آپکا انتقال 75 برس کی عمر میں 25 مئی 1938 کو ہوا۔ فاروق صاحب نے بتایا کہ پون چکی دیکھنے دور دراز سے لوگ آتے تھے، دادا مرحوم کے زمانے میں پون چکی کی تعمیر کے دوران کسی شخص نے پوچھا کہ یہ کس سردار صاحب (سکھ سردار) کا کھو ہے جو اتنا شاندار منصوبہ تعمیر کروا رہا ہے۔ یہ سن کر امام علی صاحب جذباتی ہوگئےاور کہا کہ کیا کوئ مسلمان ترقیاتی کام نہیں کرا سکتا۔ پون چکی کی تعمیر رکوائ اور فورا ایک مسجد کی تعمیر کا حکم دیا تاکہ آنیوالوں کو دور سے ہی معلوم ہو جاۓ کہ یہ کسی سکھ یا ہندو کا نہیں بلکہ ایک مسلمان کا علاقہ ہے۔
کچھ فاصلے پر صوبیدار امام علی کی رہائشگاہ بھی ہے، آپ نے اپنے تینوں بیٹوں کے لیے الگ الگ مکان تعمیر کراۓ۔ خود سب سے بڑے بیٹے کے ہاں رہائش رکھی۔ آج بھی اس میں انکی اولاد رہائش پذیر ہے۔ آپ نے صادق آباد ضلع رحیم یار خان میں بھی زمین خریدی جو اپنے بھائیوں میں تقسیم کر دی۔ ہم صوبیدار امام علی کی رہائشگاہ میں داخل ہوۓ تو اندر کا سادہ اور دیہاتی ماحول ہمیں سو سال پیچھے لے گیا۔ آپکے پوتوں اور پڑپوتوں نے جس طرح اعلیٰ اخلاق اور مہمان نوازی کا مظاہرہ کیا ہم صوبیدار امام علی مرحوم کی وضع داری کے قائل ہو گۓ جو آج بھی انکے خاندان میں برقرار ہے۔ وسیع کچے فرش کے صحن میں دانا چگتے کبوتر، حفاظت پر معمور کتا، سآگھنے درخت کے نیچے چارپائیاں، پرانے طرز کا باورچی خانہ اور اس میں لکڑی کوئلہ کا چولہا، موٹی چنائ کی دیواریں، چھت پر لکڑی کا کام، ہمیں صوبیدار امام علی کے دور میں لے گیا۔ فاتحہ تو آپکی قبر پر پڑھ ہی چکے تھے، بیٹھک کی دیوار میں لٹکی آپکی رنگین تصویر کو دیکھ کر آپکو خراجِ تحسین کیا۔ روایتی مہمان نوازی پر آپکی آل اولاد کا شکریہ ادا کیا اور اجازت طلب کی۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ صوبیدار امام علی کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے آمین۔
آخر میں سیاح دوست جناب ساجد اعوان صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انکے توسط سے ہمیں اس تاریخی ورثہ کے بارے آگاہی ملی، آپ ناصرف اس سیاحتی دورہ میں شریک ہوۓ بلکہ اپنے مہمان خانہ پر دیسی ناشتہ سے تواضع بھی کی۔ ٹیم وسیب ایکسپلورر کے اس ٹور میں ملتان سے جاوید حیدر اور معراج فہیم بھی شامل ہوۓ۔ تمام احباب کا شکریہ، ان شاءاللہ جلد کسی نۓ مقام کی تاریخ اور سیاحتی سفر کی روداد پیش کریں گے۔
تحریر و تصاویر:
ڈاکٹر سید مزمل حسین
Al Masoom Manzil, St 11, Usman Town, Multan 60000.