مارچ اور اپریل 2019 میں ہم نے وسیب کے متعدد تاریخی مقامات کے دورے کیے اور وقتا فوقتا انکی تفصیلات وسیب ایکسپلورر پر شائع کرتے رہے۔ پھر گرمی کی شدت اور رمضان المبارک کی آمد کیوجہ سے وسیب ایکسپلورر کی سیاحتی سرگرمیاں کچھ کم ہو گئیں۔ اگرچہ سحری، افطاری، عید ملن پارٹی، سوئمنگ پارٹی، کوہ سلیمان کی سیر تو ہو گئی لیکن گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے وسیب کے کسی تاریخی ورثہ کی کھوج میں نہیں نکل سکے۔ 12 جون بروز بدھ کو موسم کی تلخی میں کچھ کمی ہوئ اور سارا دن ہوا چلتی رہی، ڈیوٹی سے بھی آف تھا۔ گوگل میپ میں ملتان کے گرد و نواح میں پینڈنگ مقامات کی لسٹ پر نظر دوڑائ تو 120 کلومیٹر کی مسافت پر ضلع جھنگ کی تحصیل شورکوٹ میں مقبرہ شاہ صادق نہنگ کے پن پوائنٹ کو سر فہرست پایا۔
اس مقام کے بارے 2017 میں آرکیالوجسٹ جناب عبد الغفار بھائ کی فیس بک پوسٹ کے ذریعہ آگاہی ملی۔ دو سال کے دوران متعدد بار جھنگ جاتے ہوۓ اس مقام سے گزرے لیکن کبھی وقت کی کمی اور کبھی فوٹو گرافی کے لیے غیر موزوں وقت کیوجہ سے حاضری نہ دے سکے۔ ملتان کے سیاح دوست جناب عدنان بھٹی صاحب سے شام کے اوقات میں جانے کی بات کی آپ بخوشی راضی ہوگۓ۔ جاوید حیدر بھائ اور وسیب ایکسپلورر کے فوٹوگرافر سہیل انصاری بھی ساتھ ہو لیے۔ ہم مزاج دوستوں کے ساتھ خوشگوار سفر گزرا۔ عدنان بھائ گھر سے مٹن قیمہ پکوا کر لاۓ تھے، واپسی پر ایک ہوٹل سے گرم گرم روٹیاں خریدیں اور مزیدار قیمے سے رات کا کھانا تناول کیا۔
شاہ صادق نہنگ کا حقیقی نام سید محمد بخاری رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ آپکا تعلق سلسلہ سہروردیہ سے ہے۔ آپ جنوبی پنجاب کی مشہور روحانی شخصیات حضرت جلال الدین بخاری المعروف سرخ پوش اور مخدوم جہانیاں جہاں گشت کی اولاد میں سے ہیں۔ آپکا وصال 1181 ہجری بمطابق 1767 عیسوی میں ہوا۔ آپکی وصیت کے مطابق آپکے حجرے میں آپکی تدفین ہوئ۔ 1295 ہجری بمطابق 1878 عیسوی میں اسوقت دربار شریف کے سجادہ نشین محمد پناہ شاہ نے مقبرہ تعمیر کرایا۔ مقبرہ و مساجد مغلیہ طرز پر تعمیر کی گئ ہیں اور کاشی کاری، فریسکو، نیلی ٹائلوں سے خوبصورت کام کیا گیا ہے۔ مسجد و مقبرہ اور شاہ صادق نہنگ بستی کی حویلیاں تاریخ اور ورثہ کے شائقین کے لیے ایک اہم سیاحتی مقام کا درجہ رکھتے ہیں۔ آپکا عرس دیسی سال کے مہینہ مگھر کی 5 تا 7 تاریخ کو منعقد ہوتا ہے ۔ اگرچہ 2004 میں محکمہ آثار قدیمہ نے مقبرہ و مسجد کی مرمت کا کام کیا لیکن اب پندرہ سال گزر جانے کے بعد یہ تاریخی ورثہ پھر سے توجہ کا طلبگار ہے۔